شیخ الازہر، چئیرمین مسلم کونسل آف ایلڈرز: مظالم کے سامنے انسانی ضمیر کا ثابت قدم رہنا انسانیت کی آخری امید ہے۔
شیخ الأزہر: میں دنیا کے آزاد اور شریف لوگوں کے موقف کی قدر کرتا ہوں جن کی آوازیں غزہ کے قتل عام کی مذمت کے لیے کانپ اُٹھیں، جس نے انسان کے دل کو رلا دیا اور اس کے ضمیر کو ذبح کیا۔
شیخ الأزہر، روم میں عالمی کانفرنس برائے امن سے: مشرق وسطیٰ میں فلسطینی ریاست کے قیام اور اس کے دارالحکومت القدس الشریف کے بغیر امن ممکن نہیں۔
شیخ الأزہر، روم میں عالمی امن کانفرنس سے: میں ان ممالک کو سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا اور ان کی بہادری انسانی ضمیر کی جاگرتا کی عکاسی کرتی ہے۔
شیخ الازہر: وہ آزادی کتنی بری ہے جو کمزور سے اس کے مقدس حقِ زندگی کو اس کے اپنے ملک میں چھین لے۔
شیخ الأزہر: دنیا کو چاہیے کہ وہ ٹیکنالوجی کو انصاف اور انسانی ضمیر کی قدروں کے تابع کرے۔
شیخ الأزہر: دستاویز برائے انسانی بھائی چارہ جو میں نے اپنے مرحوم بھائی پوپ فرانسس کے ساتھ دستخط کی، آزاد دنیا کے ضمیر کی عکاسی کرتی ہے۔
شیخ الازہر: ہم ویٹیکن کے ساتھ مل کر عالمی سطح پر مصنوعی ذہانت کی اخلاقیات کے لیے ایک چارٹر جاری کرنے پر کام کر رہے۔
شیخ الازہر: بغیر انصاف کے امن ممکن نہیں… اور ہتھیاروں کی صنعت کی بالا دستی کے ساتھ عدل ممکن نہیں۔
شیخ الازہر: فضول جنگوں نے دنیا میں اخلاقی نظام کے زوال کو بے نقاب کر دیا۔
شیخ الازہر: دنیا اخلاقی طور پر تباہ ہو رہی ہے جب اقدار کو ایمان سے علیحدہ کیا جائے اور نسل پرستی اور ظلم بین الاقوامی انصاف کو نقصان پہنچائیں۔
شیخ الازہر: ظلم کے انہدام اور عالمی بحرانوں کے ملبے پر امن قائم نہیں کیا جا سکتا، یہ جدید انسانی ضمیر کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے۔
فضیلت مآب امام اکبر پروفیسر ڈاکٹر احمد الطیب، شیخ الازہر شریف، چئیرمین مسلم کونسل آف ایلڈرز، نے اٹلی کے دارالحکومت روم میں سینٹ ایجیڈیو ایسوسی ایشن کی جانب سے منعقدہ عالمی سربراہی اجلاس می ںشرکت کی، جس کا عنوان تھا ‘عالمی امن کے لیے ملاقات: امن کے قیام کے لیے حوصلہ پیدا کرنا’۔ اس موقع پر اٹلی کے صدر سرجیو ماتاریلا، بیلجیئم کی ملکہ ماتیلڈ، اور دنیا کے ممتاز مذہبی رہنما اور مفکرین بھی موجود تھے۔
اور اپنے خطاب میں، آپ نے اس بات کی تصدیق کی کہ مطلق انصاف کا تصور وہ سنہری اصول ہے جس پر آسمان اور زمین قائم ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے اسے انسانی حقوق کی ضمانت بنایا، جیسے مساوات، آزادی، وقار، سلامتی، امن، اور انسانوں کے درمیان بھائی چارہ، چاہے ان میں نسل، جنس، رنگ، مذہب یا زبان کوئی بھی ہو۔
شیخ الأزہر نے واضح کیا کہ جدید تہذیب کی طرف سے ان اقدار کو جان بوجھ کر نظر انداز کرنا ان بے معنی جنگوں کا سبب بن گیا جو غریب قوموں پر مسلط کی گئیں، جو حملہ آوروں کے سخت دل اور سنگدل ہاتھوں کا مقابلہ کرنے کے لئے نہ وسائل رکھتی ہیں نہ ہتھیار، اور جو انسانی عظمت و حرمت کا مذاق اڑاتے ہیں، اور جس کی حرمت سے اللہ تعالیٰ نے اپنی آسمانی کتابوں اور مقدس وحی میں خبردار کیا ہے۔ اس کے علاوہ اقتصادی بحران جیسے غربت، بیروزگاری اور قحط، دنیا کو شمال کے امیر و خوشحال اور جنوب کے غریب و جنگ، قحط، قرضوں، بیماریوں اور وباؤں کے بوجھ تلے دبے علاقوں میں تقسیم کرنا، اور قدرتی وسائل کے زیاں سے پیدا ہونے والے ماحولیاتی بحران، اور زندگی کی دیگر مشکلات اور مصیبتیں بھی شامل ہیں۔
شیخِ الأزہر نے مزید کہا کہ وہ سماجی بحران جو اقوام کا پیچھا کرتے ہیں اور ان کے عقائد، مقدسات اور دینی و اخلاقی اصولوں کے ساتھ کھیلتے ہیں، اور خاندان کے ادارے پر حملوں سے باز نہیں آتے، اور ایسے غیر معمولی بدیل پیش کرتے ہیں جنہیں مذاہب اور اخلاقیات رد کرتی ہیں، جو صحیح اور صحت مند ذوق کو دور کرتے ہیں، اور وہ انسانی فطرت جسے لوگ آدم علیہ السلام کے دور سے آج تک وراثت میں پاتے ہیں، اسے ٹھکرا دیتے ہیں۔
فضیلت مآب نے واضح کیا کہ اس دور کے انسان کو جو چیز درکار ہے وہ ہے: «انصاف اور انصاف کی اخلاقیات»، جن کی غیر موجودگی نے خیالات اور معیارات میں شدید الجھن پیدا کر دی ہے جو خیر اور شر، حسن اور قبح، اور صواب و خطا کے درمیان تمیز کرتی ہیں، یہاں تک کہ یہ معمول بن گیا ہے کہ ہم ظلم کو قانون کے لباس میں ملبوس دیکھیں، اور تسلط، حکمرانی اور طاقت کا غرور غریبوں اور کمزوروں پر عالمی نظام کے نام پر مسلط کی جاتی ہیں، اور آفات اور مقدسات کی خلاف ورزیوں کو مفادات اور اغراض کے بہانے جائز قرار دیا جاتا ہے۔
فضیلت مآب امام اکبر نے کہا کہ ہمارے آرام دہ مشرق میں جو جنگیں آئیں، ان میں ہمارے لیے عبرت موجود ہے۔ یہ جنگیں جب اپنی پہلی چنگاری بھڑک اٹھتی ہیں تو ساتھ ہی تباہیوں اور مظالم کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے، جیسے کہ مکانات کا انہدام اور ان کے رہائشیوں کی تباہی، ہزاروں خواتین، بزرگوں اور نوجوانوں کا بے گھر ہونا، بچوں کا بھوک سے مرنا، انسانی وقار کی خلاف ورزی سے لطف اندوز ہونا اور اکیسویں صدی میں مہذب دنیا کی نظر میں ان کے ساتھ بدسلوکی کرنا،۔ یہ آزادی بھی بری ہے جو کمزور کا حقِ حیات اس کی زمین پر چھین لے، اور یہ عدل بھی برا ہے جو یہ مظالم کرنے اور ان کا جواز پیش کرنے کی اجازت دے۔
شیخ الازہر نے ان ممالک کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے حالیہ اقوام متحدہ کے اجلاسوں کے دوران فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا۔ انہوں نے کہا: "اس موقع پر مجھے یہ موقع ہاتھ سے جانے نہ پاے کہ میں ان ممالک کا خلوص دل سے شکریہ ادا کروں جنہوں نے فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے کی پہل کی، اور میں ان کی اس جرات کی تعریف کرتا ہوں جو انسانی ضمیر کی بیداری اور فلسطینی حق کی بحالی کی عکاسی کرتی ہے۔ ہم سب کی امید ہے کہ یہ تسلیم فلسطینی عوام کو ان کے جائز حقوق حاصل کرنے کے عمل میں عملی قدم ہو، جس میں سب سے پہلے اپنی آزاد ریاست قائم کرنا اور اس کا دارالحکومت القدس شریف بنانا شامل ہے۔” شیخ الازہر نے مزید کہا کہ آج بین الاقوامی برادری اس بات پر متفق ہے کہ دو ریاستوں کے حل کے بغیر خطے اور دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا، اور مشرق وسطیٰ میں فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر کوئی امن ممکن نہیں ہے۔انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ وہ دنیا کے نیک دل افراد کی اقدار کو بھی سراہتے ہیں: خواتین، مرد، بچے اور بزرگ، جو دنیا کے بہت سے ممالک میں غزہ میں ہونے والے قتل عام کی مذمت کر رہے ہیں، جس نے انسان کے دل کو رلا دیا، اس کے ضمیر کو زخمی کیا، اور حالیہ تاریخ کے صفحات کو تاریک کر دیا۔
اور فضیلت مآب نے اس بات کی تصدیق کی کہ یہ منظر، جو ہمارے سینوں پر دو سال سے سایہ فگن ہے، بین الاقوامی نظام کی ساخت میں شدید خرابی اور اس کی پالیسیوں میں گہری الجھن کو ظاہر کرتا ہے، اور یہ کہ "بین الاقوامی امن” اب طاقت کے توازن اور اس کے جوش و خروش، ہتھیاروں کی تجارت اور اس کے منافع، جنگوں اور ان کی معیشتوں پر منحصر ہو چکا ہے، اور یہ سب مکمل طور پر حق و انصاف کے توازن، فرض کی آواز، ضمیر کی پکار، وہ فطری رجحانات جن پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا، اور عقل کی منطق سے جو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے درمیان سب سے منصفانہ تقسیم مقرر کی ہے ، ان سب سے الگ ہے۔
شیخ الأزہر نے اس بات پر زور دیا کہ یہ ‘مرکب بحران’ اگر کسی چیز کی نشاندہی کرتے ہیں تو یہ صرف اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ عالمی نظام شدید اضطراب کا شکار ہے، اسے صحیح سمت سے محروم کر دیا گیا ہے، اور اسے دوہرے معیار پر عمل کرنے کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے، بلکہ ضرورت پڑی تو سو معیار بھی استعمال کر سکتا ہے۔ اور یہ عیب یا یہ اخلاقی بیماری جو بین الاقوامی انصاف کو بری طرح متاثر کر رہی ہے، صرف ناپسندیدہ نسل پرستی اور زمین پر ظلم کی بنیاد پر ہی سمجھا جا سکتا ہے، جو ‘مطلق عدل’ کے قوانین کے بالکل مخالف ہے، جس کی بنیادیں اسلام نے رکھی ہیں جس پر میں ایمان رکھتا ہوں، بلکہ تمام الہی پیغامات نے بھی اس سے قبل یہ اصول قائم کیے تھے، اور بڑے فلسفیوں نے- افلاطون اور ارسطو سے لے کر الفارابی اور ابن رشد تک، اور عصری یورپی فلسفیوں تک – جنہوں نے انسانی ضمیر اور فرض کی اخلاقیات پر ایمان رکھا۔
اور اپنے خطاب کو جاری رکھتے ہوے کہا: ‘ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ جب انصاف غائب ہو جاتا ہے تو ظلم اس کی جگہ لے لیتا ہے، اور جب لوگوں پر ظلم ہو تو اقدار غائب ہو جاتی ہیں اور مٹ جاتی ہیں، اور انسان اپنی انسانیت کھو دیتا ہے جب وہ ذاتی مفادات، نچلی خواہشات، جھوٹی طاقت اور خود پسندی کے دباؤ میں آتا ہے، اور جب کمزور سے اس کا حق چھینا جائے، اور ظالم کو اس حق پر قابض ہونے پر عزت دی جائے، اور جب انسان سیاست کے حسابات میں ایک معمولی نمبر اور معیشت میں ایک سستی چیز بن جائے، تب ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ حق کا سورج غروب ہو چکا ہے، اور دنیا ایک اخلاقی خلا میں جا گری ہے جو نظاموں کے زوال سے پہلے ان کی اقدار اور اخلاقیات کے زوال کی پیش گوئی کرتا ہے’۔
شیخ الأزہر نے وضاحت کی کہ اسی وجہ سے الأزہر الشریف، مسلم کونسل آف ایلڈرز اور ویٹیکن نے تاریخی انسانی بھائی چارے کے دستاویز کو جاری کرنے کے لیے اقدامات کیے، جس پر فضیلت مآب نے مرحوم پوپ فرانسس کے ساتھ ابوظہبی میں سال 2019 میں دستخط کیے، ہم نے اس میں یہ بھی واضح کیا کہ امن کوئی منفی چیز نہیں ہے جو صرف ہتھیاروں کی غیر موجودگی پر مشتمل ہو، کیونکہ یہ ممکن نہیں، بلکہ یہ ایک مثبت اور وجودی چیز ہے، یعنی: عدل کی موجودگی۔ ہم نے یہ بھی بتایا کہ عدل کسی فریق کی دوسرے پر فتح نہیں ہے، بلکہ یہ انسان کی خود غرضی، تسلط اور مادی خواہشات پر فتح ہے جو ہماری سماجی، اقتصادی اور طرز زندگی کے منظرنامے پر غالب ہیں۔
فضیلت مآب نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ مصنوعی ذہانت اب ایک ایسی محرک قوت بن چکی ہے جو معاشروں میں نمایاں فرق ڈال رہی ہے، اور اس لیے ہمارا ایک اخلاقی فریضہ ہے کہ ہم اس ٹیکنالوجی کو انسانیت کے لیے ایک زیادہ منصفانہ اور عادلانہ مستقبل بنانے میں استعمال کریں۔ ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ اس نئی ٹیکنالوجی کے استعمال کے دوران اپنی قدروں اور روحانی و مذہبی ورثے کی حفاظت کرنا کوئی تفریحی اختیار نہیں بلکہ ایک اخلاقی ذمہ داری اور انسانی فرض ہے۔ میں مبالغہ نہیں کر رہا اگر میں کہوں کہ آج ہم ایک تہذیبی راستے کے موڑ پر کھڑے ہیں: یا تو ہم اس نئی ایجاد کو تہذیبی اور اخلاقی تنزلی کو بڑھانے دیں، یا اسے انسانی راہ کی اصلاح کے لیے ایک محرک قوت کے طور پر استعمال کریں۔
اور فضیلت مآب نے اپنا خطاب جاری رکھتے ہووے کہا: "میں نے اپنے مرحوم بھائی پوپ فرانسس کے ساتھ مل کر مصنوعی ذہانت کی اخلاقیات کے لیے ایک ‘معاہدہ’ تیار کرنا شروع کیا تھا، لیکن اس سے قبل کہ یہ مکمل ہو پاتا، تقدیر اور ان کی بیماری انکی وفات کی وجہ سے اس اہم دستاویز کے اجرا میں تاخیر ہوئی۔ آج؛ ازہر شریف، ویٹیکن اور مسلم کونسل آف ایلڈرز کی مشترکہ ٹیمیں اس دستاویز کو مکمل کرنے کے لیے کام کر رہی ہیں؛ تاکہ یہ ایک عالمی اخلاقی اور انسانی حوالہ بن سکے جو انسان اور اس کی تیار کردہ جدید تکنیکوں کے درمیان صحیح تعلق کو منظم کرے، اور یہ یقینی بنائے کہ مصنوعی ذہانت انسان کی خدمتگار رہے نہ کہ اس پر تلوار بنے۔”
اور شیخ الأزہر نے اپنے خطاب کے اختتام پر اس بات پر زور دیا کہ آج کی دنیا سب سے زیادہ ایسے عدل کی محتاج ہے جو اسے سکون واپس دے، اور ایک انسانی ضمیر کو جگائے جو یہ سمجھ سکے کہ ظلم – چاہے وہ کتنا ہی چھوٹا ہو – ایک ایسی چنگاری ہے جو کسی بھی جگہ امن کو تباہ کر سکتی ہے، اور جو بھی شخص اس دنیا میں ظلم کرتا ہے، وہ انسانیت کے جسم میں ایک ایسا زخم ہے جو کبھی مندمل نہیں ہوتا۔ اور یہ دنیا اپنی مشکلات سے فقط اس وقت ابھر سکتی ہے جب وہ یقین کر لے کہ عدل زندگی کا اعلیٰ قانون ہے، اور امن اس کا قدرتی نتیجہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج کے فساد کی اصل وجہ اخلاق اور ایمان کے درمیان تفریق ہے، یعنی اخلاق کو برقرار رکھنا اور ایمان کو خارج کرنا، اور جب مذہب الہی اخلاق کی راہنمائی کھو دیتا ہے، تو اخلاق ہوا کے جھونک میں آ جاتے ہیں اور یہ تنازعہ، حرص، اور کمزور اور غریب کو دبانے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔
 
				